6 ستمبر 2013 - 19:30
جھوٹ، فریب اور دھوکہ امریکی طاقت کا سرچشمہ

شام پر امریکہ کی جارحیت کی صورت میں روسیوں کی جانب سے جوابی کاروائی کئے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

ابنا: رشیا ٹوڈے ویب سائٹ کے مطابق روسی فوجی کمان کے مطابق  بحیرہ روم میں موجود روسی جنگي جہاز، شام کےخلاف امریکہ کے ممکنہ حملوں کے جواب میں کاروائياں کرسکتے ہیں۔ روسی فوج کے اس ذریعے نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو مزید جہازوں اور آبدوزوں کو علاقے میں بھیجا جاسکتا ہے۔  درایں اثنا ریانووستی نیوز ایجنسی نے روسی مسلح افواج کی مشترکہ کمان کے ایک اعلی افسر کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ میزائلوں کا حامل جہاز بحیرۂ روم کی طرف روانہ ہوگيا ہے اور سترہ ستمبر تک وہاں پہنچ جائے گا۔ اس ذریعے نے کہا ہےکہ بحیرۂ اسود میں روسی جہازوں میں شامل دو جہاز بھی انتیس ستمبر تک بحیرۂ روم پہنچ جائيں گے۔ واضح رہے کہ امریکہ اور اسکے مغربی اور عرب اتحادی، مسلسل شام پر حملوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور امریکی جنگی بحری بیڑے بحیرہ روم میں پہنچ چکے ہیں۔ امریکی دھمکیوں سے پتہ چلتا ہے کہ اب وھائیٹ ہاؤس میں وہ دم خم نہیں رہا جس کا اظہار گیارہ ستمبر کے بعد امریکی حکام کے بیانات میں نظر آتا تھا البتہ اس وقت صرف وہ جانتے تھے کہ وہ  کچھ کہہ رہے ہیں اس کا حقیقت سے دور بھی واسطہ نہیں ہے لیکن اب ان کے ساتھ ساتھ سب کو معلوم ہے کہ شام کے تعلق سے امریکی حکام کذب بیانی سے کام لے رہے ہیں۔سیدھی سادھی بات ہے کہ شام میں کیماوی ہتیار استعمال ہوئے ہیں، فوج نے کئے ہیں یا دہشت گردوں نے، اس سے امریکہ کی قومی سلامتی کسطرح متاثر ہوئی؟ اس سوال کا جواب تلاش بسیار کے بعد بھی کہیں نہ مل سکا۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اس خطے کے عوام کی سلامتی کو امریکہ اپنی قومی سلامتی سمجھتا ہے تو  حال ہی میں  مصری افواج نے سینکڑوں عام اور نہتے شہریوں کو گولیوں سے بھون ڈالا اور یہ عمل پوری شد و مد کے ساتھ جاری ہے، لیکن اس عمل سے امریکہ کی قومی سلامتی کوئی خطرہ کیوں لاحق نہیں ہوا  عالمی رائے عامہ کے لئے یہ ایک سوال ہے؟ایک اور  بات یہ ہے کہ امریکہ کس منہ سے کیماوی ہتیاروں کے استعمال کی مذمت کر رہا ہے جبکہ اس کا ماضی ویتنام کے نہتے شہریوں کے خلاف ان ہتیاروں اور زہریلی گیسوں کے استعمال کی بات بالکل سیاہ ہے۔مغربی میڈیا کے مطابق گذشتہ ڈھائی سال کے دوران شامی فوج کے ہاتھوں ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے ہیں لیکن امریکہ کو جو خود جنگ ویتنام میں اس قسم کے مہلک ہتیاروں کے استعمال خاصا تجربہ رکھتا ہے صرف ان چند سو افراد کا غم مارے ڈال رہا ہے جو  بقول اس کے کیماوی بمباری کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے ہیں۔ یعنی اگر شامی فوجی اپنے مخالفین کو ٹینکوں اور توپوں کے ذریعے گولہ باری کرکے ہلاک کریں تو اس سے امریکہ کی قومی سلامتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ البتہ امریکیوں کی نرالی منطق کہ اسے اگر منطق کہا جائے تو اس سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔ امریکہ کی اس نرالی منطق کے تحت ہی جان کیری کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ شام کیخلاف فوجی کارروائی کرنے میں ناکام رہا تو ایران، حزب اللہ اور امریکہ کے دیگر دشمن شیر ہوجائیں گے۔جان کیری کا یہ بیان شام کے تعلق سے امریکہ اور اس دوستوں کے حقیقی عزائم کو آشکارا کرنے کے لئے کافی ہے۔ امریکہ وزیر جنگ چک ہیگل نے جو شام کے خلاف طبل جنگ بجانے کے بے چین نظر آتے ہیں یہ ظاہر کرنے کے لئے امریکہ اس جنگ میں تنہا نہیں ہے کہا کہ فرانس، ترکی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی اتحادی ممالک شام کے خلاف کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔  حقیقت امر یہ کہ امریکہ اور اس علاقائی اور عالمی اتحادیوں نے یہ سوچ کر شام کی حکومت کے سیاسی مخالفین کی تحریک کو دیوار سے لگاکر ان کی جگہ مسلح باغیوں کی حمایت شرع کی تھی وہ نہیں چاہتے تھے کہ شام میں اصلاحات کا عمل پر امن طریقے سے انجام پائے اور خطے کی دیگر حکومتوں کے لئے مثال بن جائے جو چند خاندانوں کے اختیار میں ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب اور قطر نے جہاں دور دور تک جمہوریت  اور آزادی کا شائبہ تک نہیں ہے، اپنے مضحکہ خیز بیانات میں یہ دعوی کرنا شروع کردیا کہ شام میں آزادی بیان اور جمہوریت کا فقدان ہے لہذا بشار اسد کو فورا حکومت سے علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے۔ یہ بات اگر  اس خطے میں امریک مفادات اور صہیونی حکومت کے حلیف یعنی ترکی کے وزریراعظم رجب طیب اردغان نے کہی ہوتی تو شائد اتنی مضحکہ خیز معلوم نہ ہوتی اور سعودی عرب اور قطر کی خاندانی اور مورثی حکومتوں پر لوگوں کو انگلیاں اٹھانے کا موقع نہ ملتا۔ لیکن چونکہ یہ باتیں امریکہ کی طرف سے ڈکٹیٹ شدہ تھیں اور آل سعود اور آل ثانی کے اندر اتنی صلاحیت نہیں تھی کہ وہ یہ تشخیص دی سکتے کہ یہ باتیں وہ ترکی وزیراعظم رجب طیب اردوغان سے کہلواتے لہذا جو کچھ امریکہ نے ان سے کہا تھا ایک رٹو طوطے کی طرح انہوں نے کہہ ڈالا۔ حتی امریکی وزیر خارجہ وقت ہلیری کلنٹن بھی قطر اور سعودی عرب کی اس سعادتمندی پر مسکراکر رہ گئیں۔بہرحال امریکہ کی ماضی کی جنگوں کے سارے اخراجات خلیج فارس کے عرب ملکوں نے اٹھائے تھے اور اب شام کے خلاف جنگ کے لئے بھی یہی عرب ممالک سارا خرچہ اٹھانے کی ذمہ اری اپنے ذمے لے چکے ہیں۔ چنانچہ اوباما اور ان کی ٹیم جب افغانستان اور عراق میں اپنی ناکامیوں کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ شام پر حملے کو اپنے لئے ایک اور رسوائی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں لیکن جب وہ  سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کی فراخدلانہ پیشکشوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو انہیں شامی عوام اور سفید رنگت والے امریکیوں کی قومی سلامتی ایک نظر آنے لگتی  ہے۔ لہذا اوباما علی اعلان یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ شام کی حکومت کی جانب سے کیماوی ہتیاروں کا استعمال امریکہ کی قومی سلامتی پر حملہ ہے۔ایک اور چیز جسے امریکی حکام اپنے عوام اور عالمی برادری سے چپھارہے ہیں وہ شام میں القاعدہ اور اس سے وابستہ  انتہا پسند گروپوں کا کردار ہے۔ جان کیری نے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس امر کا انکار کیا ہے اور اتنا وضح جھوٹ بولا ہے کہ روس کے صدر پوٹن سفارتی آداب کو بالئے طاق رکھتے ہوئے جان کیری کو جھوٹا انسان کہنے پر مجبور ہوگئے۔ اوباما نے  بھی جھوٹ بولتے ہوئے کیماوی ہتیاروں کے استعمال کو اکیسویں صدی کا المیہ قراردیا اور یہ بھول گئے کہ صرف چند سال قبل یعنی بیسویں صدی کے آخری چند برسوں میں ان کا ایک چہیتا یہ مہلک ہتیار ببانگ دہل استعمال کر چکا ہے۔ خود امریکی سرکاری دستاویزات کے مطابق عراق کے ڈکٹیٹر کی جانب سے کیمیاوی ہتیاروں کے استعمال سے متعلق ساری تفصیلات سے امریکی حکام کو باخبر کردیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود اس بھیانک اور غیر انسانی جرم پر امریکی حکام نے صدام کی پیٹھ تھپتھپانےنے کے ساتھ ساتھ ایران کے خلاف جنگ میں اس کا ساتھ دیا اور اس کی دیکھا دیکی دیگر مغربی ممالک خصوصا، فرانس، جرمنی، اور برطانیہ نے جدید ترین سپر اٹینڈرڈ طیارے، ٹی 72 قسم کے ٹینک اور  دور مارتوپیں صدام کے اختیار میں دیدیں تاکہ جنگ کا پانسا صدام کے حق میں پلٹ جائے۔عراق کردستان کے شہر حلبچے میں اپنے کرد عام شہریوں کو کیماوی بمباری کا نشانہ بنانے پر بھی امریکہ مغرب اور انکے عرب اتحادیوں نے صدام کے اس غیر انسانی جرم پر خاموشی اختیار کرلی کہ جس میں چند سیکنڈ میں ہزاروں معصوم بچے، عورتیں بوڑھے لقمہ اجل بن گئے۔ اس خوفناک واقعے کی دل ہلادینے والی تصاویر آج بھی آنکھوں کو اشکبار کردیتی ہیں۔ بہر حال عرب اور اسلامی دنیا ایک بار پھر امریکیوں کے دوغلے پن اور اپنے غدار اور خیانت کار حکمرانوں کی بدولت خطرناک جنگ سے دوچار ہونے والی ہے کہ جس میں سارا جانی اور مالی نقصان مسلم امہ کا ہوگا اور اس کا خرچہ بھی مسلم امہ کی جیب سے دیا جائےگا۔......./169